Monday, November 17, 2008

Is bar rahe ishq kuchh itni taveel thi
Uske badan se hoke guzarna pada mujhe

2 comments:

Tasneef said...

Yeh sher waaqai bht ahm hai...maine apne mazmoon Asri shairi ke khazaaen mein is ki talkhees ki hai.....badan se ho ke guzarna pada......ek poore asr ke zehni inteshaar, kashmakash aur laa haasli ki daastaan sunaata hua mehsoos hota hai.....

اثبات said...

تصنیف ! ضروری نہیں کہ ہم ’’بدن سے ہو کے گذرنے‘‘ کو ’’ایک عصر کے ذہنی انتشار‘‘ کی تمثیل ہی قرار دیں۔ شعر کی غواصی بری بات نہیں ہے لیکن کبھی کبھی اسے کنارے کھڑے ہو کر دیکھنے میں بھی علاحدہ لطف ہے۔ امیرا مام کے اس شعر سے میں اسی طرح لطف اندوز ہوا۔ میں نے اسے اپنی جانب سے کوئی معنی دینے کی کوشش نہیں کی بلکہ شعر جو دکھا رہا تھا، جو بول رہا تھا، اسے غور سے سننے پر اکتفا کیا ۔بقول صوفیوں کے، نامرد عاشق نہیں ہوسکتا۔ رجولیت ضروری ہے عاشق ہونے کے لیے۔ ’’کون ہوتا ہے حریف مئے مرد افگن عشق‘‘۔ شاعر/متکلم نے عشق کی تکمیل رجولیت کو قرار دیا ہے جو ظاہر ہے بہت صحیح ہے۔